Saturday 27 August 2011

غزل

اڑتے پل سے وہ گزرے ، سفید بادلوں کی طرحنظر بھی آئے ذرا ذرا ، پھر اوجھل ہو گئے ،
زندگی تكتي رہی ، اشاروں کی وہبتیاں رشتے تمام یوں نگاہوں سے بہتے کاجل ہو گئے ،
اپنا پن ، فٹ پاتھ ، پرانی کتابوں کی دکانچھو نہ سکا ، کہ عشق آسمانی آنچل   ہو گئے ،
وہ ہنسے یا آنسو بہائے ، کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ،چاہنے والے نہ جانے کب ، کہاں ، کیوں پاگل ہو گئے ،
گفاؤں  میں تھا کہیں گم ، وہ خود کو یوں مٹایہ ہوےریشمی دھاگو کے خواب تمام مكڑي کے جال ہو گئے ،
نہ دے سدا کہ بازگشت تیری ابھر کر بکھر جائے گیزندگی کے حسین پل ، پگھل کر بادل ہو گئے ،
لوگ کہتے ہیں ، مجھے برباد اک دردے  افسانا ، کہیںهمراهے طوفان ، جذبات تمام  سنگے  ساحل ہو گئے!
شانتانو  سانيال

غزل

تاروں بھرا یہ شاميانا، رات سجی دلہن --

زندگی چاہے نذات، پھر وہی چر دہن،

دریا سے اٹھے دھواں، بچیں   قشتي، روح بیقرار 
ڈوبتي ابھرتی لہریں، پھر وہی ادھیر تھكن،

رکے ضرور وادیوں  میں، مڑ کے دیکھا بھی ہمیں --
نہ بڈھے قدم، گھےرتي رہی یوں دل کی الجھن،

کوئی سایہ اندھیروں  میں بھٹكتا رہا رات بھر --
بند دروازے، دستک نہ دے سکا، یہ میرا من،

ویراں سڑکوں سے کون گزرا لهولهان پاؤں
جسم پہ بکھرے داغ، انبجھ ہے وہ اگن،

خود کو سمےٹتا ہوں، میں مسلسل زندگی
کیا ہوا کہ وہ تمام مسسرتے ہیں،گھن 

صبح کی روشنی میں نہ دیکھ یوں زمانہ مجھے
ميلو لمبی تيرگي سے چرا لایا ہوں یہ بدن،

شانتانو  سانيال

غزل

اٹٹهاس کے درمیان زندگی بےلباس کھڑی
وقت کی مہربانیاں،   بھی کچھ کم نہیں،

کھینچ لو جتنا چاهو سانسوں کی رفتار --
مذل پہ کبھی تم اور کبھی ہم نہیں،

اس دور میں ہر کوئی، خود سے ہے مخاتب
آئینہ خاموش، کہ مجھے بھی شرم نہیں،

باندھ لو نگاہوں میں پٹیاں یہ رهنماو
جان کے بھولی ہیں  راہیں، میرا کوئی وہم نہیں،

معلوم ہے مجھے زمانے کی رسمے وفاداری
دولت پہ نگو سر، ان کا کوئی دھرم نہیں،

وہ پھر بنیںگے  شہنشاہ لوٹ کر سارا شہر
کرو راجتلك، روکے کوئی وہ قسم نہیں،

اس طرح جینے کی عادت مجھے راس نہیں --
یہ زہر ہے میٹھا، یہ الاجے ملهم نہیں،

اٹھو بھی آسمانوں سے دہکتے شكلے طوفان 
تھام لےشیلابے  جنو، کسی میں وہ دم نہیں.

شانتانو  سانيال
غزل

جگر کی آگ اور یہ جلتا ہوا آسماں --
زندگی ٹھهري رہی دیر تک بارش کی چاہ میں،

وہ بچہ روتا رہا درمیان سڑک، بھیڑ میں کہیں --
بچپن بكھرتا رہا، ایک وارث کی چاہ میں،

گلموہر  کھلے، یہیں پہ کہیں یہ خبر ہی نہیں --
ہاتھ بڈھے نہیں، سر جھکے تھے آشیش کی چاہ میں،

کون گاتا ہے رات ڈھلے، تنها، دردبھري غزل --
پتھر  نہ پگھلے، عمر گزری تپش کی چاہ میں،

نہ چھو یوں بار بار اس مجرهے زندگی کو تو --
چلا ہوں ٹوٹے شیشوں پہ، اک بكھشيش کی چاہ میں،

دیکھا ہے، بہت قریب سے بہار کو منہ پھےرتے --
ہوں اب تک نادان ، کسی پرورش کی چاہ میں،

شانتانو  سانيال

غزل 

کوئی شیشہ اے خواب نہیں، جیسا چاہا کھیل گئے
جسم ہے یہ کانٹوں  سےسجا ، رکو ذرا سنبھل کے،

هقارت، نفرت، آگ کےشولوں   میں ڈھلا ہوں میں
آس پاس بھی ہیں زندگی، دیکھو ذرا نکل کے،

بند گھروں کی کھڑکیوں سے، ہے دور جلتا چمن
بچچوں  کی ماند پھر بھی، كھےکھیلو ذرا مچل کے،

ان لہروں میں اٹھتی ہیں ہار او جیت کی تصاویر
کسی دن کے لیے یوں دل، دیکھو ذرا بدل کے،

سمندر کا كھاراپن، ساحل کو اپنا نہ سکا
ندی کی مٹھاس میں کبھی خود، دیکھو ذرا ڈھل کے،

کندن ہو یا ہیرے کی چبھن، مجھے معلوم نہیں --
بھیگی نگاہوں سے تو کبھی، دیکھو ذرا پگھل کے،

مندر مسجد تک، کیوں صرف تمہاری منزل!
قریب ہے زندگی، ننگے پاؤں، آؤ ذرا چل کے،

شانتانو سانيال
غزل
جھکی نظر میں ، کئی انتظار اے شب گزر گئے ، ٹوٹتے تاروں کا پتہ تلاش کرتا رہا دل ، پھذاے ، چاند ، خشبو سبھی اپنے اپنے گھر گئے ،
خلاو میں گونجتی رہی وہ اندھیرے کی سداے ، شبنم ، جگنو ، پھول ، یوں سینے میں درد بھر گئے ،
وہ كھواهيش جو بھٹكتي ہے ، بيابانو میں آکے سینے کے بهوت قریب ، خاموش ٹھہر گئے ،
ناخدا پكارتا رہا کناروں کو بار بار ساحل یوں ٹوٹا ، خوابوں کی زمیں دور بکھر گئے ،
زندزگی اک مدّت  کے بعد مسكرايي ضرور ، آئے بھی نظر ذرا ، پھر نہ جانے وہ کدھر گئے ،
اس شبستان میں سنا ہے اترتي ہیں كهكشا ، ڈوبنے سے قبل کشتی ، وہ احباب تمام اتر گئے ،
ساياداردرختوں  میں گل کھلے وكتے معمول هشبے كھذا لیکن رشتوں کے پتے تمام جھر گئے ،

--شانتانو  سانيال