Saturday 27 August 2011


غزل

اٹٹهاس کے درمیان زندگی بےلباس کھڑی
وقت کی مہربانیاں،   بھی کچھ کم نہیں،

کھینچ لو جتنا چاهو سانسوں کی رفتار --
مذل پہ کبھی تم اور کبھی ہم نہیں،

اس دور میں ہر کوئی، خود سے ہے مخاتب
آئینہ خاموش، کہ مجھے بھی شرم نہیں،

باندھ لو نگاہوں میں پٹیاں یہ رهنماو
جان کے بھولی ہیں  راہیں، میرا کوئی وہم نہیں،

معلوم ہے مجھے زمانے کی رسمے وفاداری
دولت پہ نگو سر، ان کا کوئی دھرم نہیں،

وہ پھر بنیںگے  شہنشاہ لوٹ کر سارا شہر
کرو راجتلك، روکے کوئی وہ قسم نہیں،

اس طرح جینے کی عادت مجھے راس نہیں --
یہ زہر ہے میٹھا، یہ الاجے ملهم نہیں،

اٹھو بھی آسمانوں سے دہکتے شكلے طوفان 
تھام لےشیلابے  جنو، کسی میں وہ دم نہیں.

شانتانو  سانيال

No comments:

Post a Comment