غزل
جگر کی آگ اور یہ جلتا ہوا آسماں --
زندگی ٹھهري رہی دیر تک بارش کی چاہ میں،
وہ بچہ روتا رہا درمیان سڑک، بھیڑ میں کہیں --
بچپن بكھرتا رہا، ایک وارث کی چاہ میں،
گلموہر کھلے، یہیں پہ کہیں یہ خبر ہی نہیں --
ہاتھ بڈھے نہیں، سر جھکے تھے آشیش کی چاہ میں،
کون گاتا ہے رات ڈھلے، تنها، دردبھري غزل --
پتھر نہ پگھلے، عمر گزری تپش کی چاہ میں،
نہ چھو یوں بار بار اس مجرهے زندگی کو تو --
چلا ہوں ٹوٹے شیشوں پہ، اک بكھشيش کی چاہ میں،
دیکھا ہے، بہت قریب سے بہار کو منہ پھےرتے --
ہوں اب تک نادان ، کسی پرورش کی چاہ میں،
شانتانو سانيال
جگر کی آگ اور یہ جلتا ہوا آسماں --
زندگی ٹھهري رہی دیر تک بارش کی چاہ میں،
وہ بچہ روتا رہا درمیان سڑک، بھیڑ میں کہیں --
بچپن بكھرتا رہا، ایک وارث کی چاہ میں،
گلموہر کھلے، یہیں پہ کہیں یہ خبر ہی نہیں --
ہاتھ بڈھے نہیں، سر جھکے تھے آشیش کی چاہ میں،
کون گاتا ہے رات ڈھلے، تنها، دردبھري غزل --
پتھر نہ پگھلے، عمر گزری تپش کی چاہ میں،
نہ چھو یوں بار بار اس مجرهے زندگی کو تو --
چلا ہوں ٹوٹے شیشوں پہ، اک بكھشيش کی چاہ میں،
دیکھا ہے، بہت قریب سے بہار کو منہ پھےرتے --
ہوں اب تک نادان ، کسی پرورش کی چاہ میں،
شانتانو سانيال
No comments:
Post a Comment