Saturday 27 August 2011

غزل

جگر کی آگ اور یہ جلتا ہوا آسماں --
زندگی ٹھهري رہی دیر تک بارش کی چاہ میں،

وہ بچہ روتا رہا درمیان سڑک، بھیڑ میں کہیں --
بچپن بكھرتا رہا، ایک وارث کی چاہ میں،

گلموہر  کھلے، یہیں پہ کہیں یہ خبر ہی نہیں --
ہاتھ بڈھے نہیں، سر جھکے تھے آشیش کی چاہ میں،

کون گاتا ہے رات ڈھلے، تنها، دردبھري غزل --
پتھر  نہ پگھلے، عمر گزری تپش کی چاہ میں،

نہ چھو یوں بار بار اس مجرهے زندگی کو تو --
چلا ہوں ٹوٹے شیشوں پہ، اک بكھشيش کی چاہ میں،

دیکھا ہے، بہت قریب سے بہار کو منہ پھےرتے --
ہوں اب تک نادان ، کسی پرورش کی چاہ میں،

شانتانو  سانيال

No comments:

Post a Comment