Monday 25 July 2011


نظم
گزریں ہیں بادے صبا اکسر اداس سی 
اس زمیں کا آسماں کوئی نہیں 
کھلتے ہیں گلو زوہر دلکش 
انداز لئے، زمانے کو فرصت ہی
نہیں کہ دیکھیں اک نظر کے لئے ،
وہیں رکی سی ہیں فصلےبہار 
ترستی ہیں نگاہ دردے اسرکے لئے 
نہ جانے کس مقام پہ برستی ہیں 
بدلیاں مدّتوں زمیں تر دیکھا نہیں ،
کوئی سبب شاید انھیں مسکرانے نہیں 
دیتی، ورنہ چاہت میں کمی 
کچھ بھی نہ تھی، 
شانتانو سانیال -