Saturday 17 September 2011

نظم

 آسماں کی تھیں شاید مجبوریاں
نجم ٹوٹ کر بكھرتے رہے 
زمیں کے تھے اپنے ہی 
متق ، جو چاہ کر بھی اپنا نہ 
سکی سمٹتي نوری جريا 
ہر اک سانس میں تھا 
خدا ، ہر قدم 
پہ جینے کی آرزو ، بے اثر رہیں نہ 
جانے کیوں اپنا بنانے کی 
ادا ، ہر اک بات پہ نہ 
کہو کہ لللاه کی 
مرضی ، اسی نے کہا تھا مجھے کہ ملوں 
میں تم سے مسجد کے سائے 
مندرکی سیدیوں   میں 
کہیں ، تپتے دھوپ میں ، سرد چاند راتوں میں ، 
ملے بھی تم مگر اجنبی کی 
طرح ، پوچھتے رہے لہو کا رنگ 
جینے کی اہمیت 
منتشر ہونے کا 
مقام ، ہزاروں سوالات ، دے نہ سکا 
کوئی معقول جواب ، اپنی یہ 
شخصیت  لئے لوٹ چلا 
میں گمشدا قبرگاهو 
کے قریب ، جہاں پھذاو میں ہے پرسکون 
خاموشی ، اپنا پن ، زندگی 
یہیں کہیں کرتی ہے تلاش 
ستاروں کے ٹوٹنے کی 
وجہ ، اشقيا لوگوں کے مقبرے ، روهو کی 
سرذمي ، رات ڈھلتے جہاں لگتے ہیں 
سوفيو کے میلے ، عقیدت یہاں 
ہے غےرماني ، شرط ہیں تمام 
صرف انسانی! 

--شانتنو  سانيال 
http://sanyalsduniya2.blogspot.com/ 

مطلب -- 
نجم -- تارا 
متق -- دلیل 
نوری جريا -- روشنی کا بہاؤ 
صوفی -- اسرار 
عقیدت -- نیاز 
معقول -- صحیح