نجم ٹوٹ کر بكھرتے رہے
زمیں کے تھے اپنے ہی
متق ، جو چاہ کر بھی اپنا نہ
سکی سمٹتي نوری جريا
ہر اک سانس میں تھا
خدا ، ہر قدم
پہ جینے کی آرزو ، بے اثر رہیں نہ
جانے کیوں اپنا بنانے کی
ادا ، ہر اک بات پہ نہ
کہو کہ لللاه کی
مرضی ، اسی نے کہا تھا مجھے کہ ملوں
میں تم سے مسجد کے سائے
مندرکی سیدیوں میں
کہیں ، تپتے دھوپ میں ، سرد چاند راتوں میں ،
ملے بھی تم مگر اجنبی کی
طرح ، پوچھتے رہے لہو کا رنگ
جینے کی اہمیت
منتشر ہونے کا
مقام ، ہزاروں سوالات ، دے نہ سکا
کوئی معقول جواب ، اپنی یہ
شخصیت لئے لوٹ چلا
میں گمشدا قبرگاهو
کے قریب ، جہاں پھذاو میں ہے پرسکون
خاموشی ، اپنا پن ، زندگی
یہیں کہیں کرتی ہے تلاش
ستاروں کے ٹوٹنے کی
وجہ ، اشقيا لوگوں کے مقبرے ، روهو کی
سرذمي ، رات ڈھلتے جہاں لگتے ہیں
سوفيو کے میلے ، عقیدت یہاں
ہے غےرماني ، شرط ہیں تمام
صرف انسانی!
--شانتنو سانيال
http://sanyalsduniya2.blogspot.com/
مطلب --
نجم -- تارا
متق -- دلیل
نوری جريا -- روشنی کا بہاؤ
صوفی -- اسرار
عقیدت -- نیاز
معقول -- صحیح