Sunday 25 September 2011

غزل

نا شناس منزل پہ کہیں ہے وہ نور اے الوي
یا بھٹكتي ہے روح یوں ہی چھونے افك رےسمان ،

ریشمی پروں پہ ہیں تیری ذريف انگلیوں کے داغ
اڑ چلے ہیں ، ابرے ذجبات ، یوں جانبے آسمان ،

ذيارتگاهو میں جلے ہیں پھر اثر اے فانوس
جاودا عشق ہے یہ ، کھل چلے پھر بيابان ،

سرجش نہ تھے جامد ، اس حسیں گناہ کے لئے
سولی سے اترتے ہی ، وہ ہو چلا یوں ہی باغ بان ،

شہر بھر چرچا رہا ، ہے اس کی وہ مرموذ ادا
ميرے کارواں بن چلا وہ اجنبی سا انسان ،

تلاتم سے اٹھ چلے پھر مسرقي فلک پہ
سفرے ذيست میں چلنا ، نہیں تھا اتنا آسان ،

یہ کوشش کے بدل جائے هاقم کا نظریہ
ہر دور میں دنیا چاہتی ہے صادق مہربان ،

-- شانتنو سانيال

مطلب :
نا شناس -- نامعلوم
نور اے الوي -- خدا نور
افك رےسمان -- افق لائن
ذريف -- نازک
اثر اے فانوس -- شام کے دیئے
جاودا -- اننت
سرجش -- الذام
جامد -- ٹھوس
مرموذ -- رهسمي
تلاتم -- تحریک
ذيست -- زندگی
صادق -- اماندار
 مسرقي فلک -- مسرقی  آسمان
http://sanyalsazeez.blogspot.com/