Tuesday 27 September 2011


غزل 

مطلب جانے کیا تھا اس سكوت نگاہ کا يارب 
شعلے تھے متاجب دیکھ ، اس سرد خاک کا سلگنا 

ممکن نہ تھا ، ہر زہر کو حلق پار کرنا 
بےذان تھی ، تپش مشکل تھا سنگ کا پگھلنا 

وہ جس مقام سے دیتا ہے ، مجھے سدايے تڑپ کر 
ترے اتشپھشا پہ طے تھا لیکن تاج کا ڈھهنا 

روک لیتا کسی طرح بھی میں اس كولاكے قہر کو 
اسا نہ تھا شیشہ اے درد کو چھوكے پھر سے سبھلنا 

شبنم کے وہ قترے ٹھہرے رہے كاٹو کی نوک پہ یوں 
خشک پتے تھے بدنسيب ، دسوار تھا پھر بھيگنا 

رکی رہی دیر تک فلک پہ ستاروں کی وہ مجلس 
چاہ کر بھی ہو نہ سکا ذيست کا گھر سے نکلنا. 

-- شانتنو  سانيال 
مطلب -- 
متاجب -- حیرت سے 
سكوت -- خاموشی 
اتشپھشا -- آتش فشاں 
مجلس -- ادارہ 
كولاكے قہر -- طوفان کی بربادی 
ذيست -- زندگی