Saturday 1 October 2011



بغیر انکے


مدتوں سے اے دل، خود سے خود کی ملاقات نہیں ہوتی
مخاطب بیٹھے رہیں وہ، لیکن کوئی بھی بات نہیں ہوتی


گھرتا ہے اندھیرا، لرجتي ہیں یوں رہ رہ کر، رقس اے برك
اٹھتی ہیں لہریں بهوت اوپر، پھر بھی برسات نہیں ہوتی


نبض ہاتھوں میں تھامے، ہوتا ہے وہ لئے اشک بھری نگاہیں
سديد جینے کی تمنا ہو جب زندگی ساتھ نہیں ہوتی


جی چاہتا ہے کے بھر دوں، ہتھیلیوں پہ، بےنتها رنگ گہرے
حنا اے جگر لے کے بھی، پل بھر کی نذات نہیں ہوتی


اڑتی ہیں شام ڈھلتے، پھذاو میں اک عجیب سی خماري
یہ اور بات ہے کے ہر شب لیکن، حسیں چاند رات نہیں ہوتی


بكھرتے ہیں قهقسا نیلے سمندر میں بے دور تلک
بے معنی تمام فلسفہ بغیر اس کے یہ قاينات نہیں ہوتی.


-- شانتنو  سانيال