Thursday 15 September 2011

غزل


پھر وہی انداز تیرا دل دكھانے والا 


ہوں اپنی ہی دنیا میں اس قدر مشغول 
خبر ہی نہیں کہ ہے کوئی یہاں آنے والا ، 

چھوكے جاتی ہیں سمندر کی نمکین ہوائیں 
ہے شام بھی کھلے ذكھمو کو دکھانے والا ، 

ہزار کوشش کر جائے یہ بھیگی سی رات 
سخت سهرا کی ذمي ، نہ مسکرانے والا ، 

تیری چاہت میں نہ جانے وہ بات نہیں باقی -- 
ہو جادو یا نشہ ، جسمو جاں ہلانے والا ، 

ہے معلوم مجھے موجو پہ یوں ننگے پاؤں چلنا 
چاهےابر  میں گھلنے کا فن سکھانے والا ، 

کوئی خواب جو دے جائے تسكي بےقران  ، مجھے 
اندھیرے میں بھی دل کی روشنی دکھانے والا ، 

وہ مسیحا یا کوئی بھولا فرشتہ جو بھی ہو 
ملے تو کہیں ٹوٹے دلوں کو ملانے والا ، 

بیاباں  میں زندگی کے پھول کھلانے والا! 

 شانتانو  سانيال