پھر وہی انداز تیرا دل دكھانے والا
ہوں اپنی ہی دنیا میں اس قدر مشغول
خبر ہی نہیں کہ ہے کوئی یہاں آنے والا ،
چھوكے جاتی ہیں سمندر کی نمکین ہوائیں
ہے شام بھی کھلے ذكھمو کو دکھانے والا ،
ہزار کوشش کر جائے یہ بھیگی سی رات
سخت سهرا کی ذمي ، نہ مسکرانے والا ،
تیری چاہت میں نہ جانے وہ بات نہیں باقی --
ہو جادو یا نشہ ، جسمو جاں ہلانے والا ،
ہے معلوم مجھے موجو پہ یوں ننگے پاؤں چلنا
چاهےابر میں گھلنے کا فن سکھانے والا ،
کوئی خواب جو دے جائے تسكي بےقران ، مجھے
اندھیرے میں بھی دل کی روشنی دکھانے والا ،
وہ مسیحا یا کوئی بھولا فرشتہ جو بھی ہو
ملے تو کہیں ٹوٹے دلوں کو ملانے والا ،
بیاباں میں زندگی کے پھول کھلانے والا!
شانتانو سانيال