غزل
زندگی کو تھمنے دیکھا ہو جس طرح بھی
دو پل کا ساتھ مگر متاثر کر گیا
یوں تو چاہت کی فہرشت تھی بھوت لمبی
اپلک آنکھوں سے وو سب ظاہر کر گیا
اس موڈ پی جا کر بکھر جاتے ہیں راستے
درد کو سہنے کے لئے وو ماہر کر گیا
مجھسے چاہتے ہو نہ جانے کیا کھل کے کہو
ہوں محلوں میں مگر دل بےگھر کر گیا
اسنے قسم کھایی تھی ہر قدم پی میرے لئے
نہ جانے آخر کیوں تنہاں سفر کر گیا
رشتوں کی بھیڑ میں شاید کھو گیا ہو کہیں
دردے وصیت لیکن وو میرے نظر کر گیا
شانتانو سانیال -