Sunday 21 February 2016

خود سے ملاقات ہوئی - -



کتنے دنوں کے بعد یوں آئینے سے بات ہوئ
کتنے دنوں کے بعد خود سے ملاقات ہوئی،
عمر تو گزر گئی یوں درختوں کی دیکھ بھال میں
اخري ڈھلان  پہ جا کہیں [پرچھائ  ساتھ ہی ،
کسے یاد رہتا ہے بچپن کی نادانيا،
خوابوں کے سفر میں یوں تمام میری رات ہوئی،
ہر کوئی تھا بےبش ہر کوئی جاں بچاتا  سا،
رات ڈھلتے زندگی، توايفي جذبات ہوئی،
آپ بھی چاہیں تو اخري قہقہہ لگا جایں ،
بہت دنوں بعد شہر میں آج برسات ہوئی،
* *
-  شانتنو  سانیال

Tuesday 7 January 2014

میرے اند

میرے اندر کوئی دہن خوابیدہ ، ہے
چاہے ہونا آتشفشاں
روکتی ہیں کیوں تیری
نگاہ پرنم
مجھے یوں
بارہا، کہ اس چاہت میں نہ ہو -
جائیں کہیں اپنے جَل
کے خاک سارے ارماں.
کبھی تو تو کھل
کے آئے
باہر، پردہ اے راز سے اے همنفس،
کبھی تو میری زندگی کو
ملے، نجات اے عشق -
پنہاں !
**
 شانتانو  سانیال
پنہاں  - پوشیدہ

Tuesday 9 July 2013

نقتا اے آغاز -

ان لمحوں کی کشش ہے جان لیوا، پھر بھی
مجھے جی لینے دے، کچھ دیر اور ذرا!
رہنے دے بے، بکھری ہوئی
نگاہوں کی روشنی،
مدھم ہی -
صحیح
کچھ پل تو نظر آئے انوان اے زندگی،
یہ چاہت ہے کوئی پرندہ دستگير کہ
دريچا قفس ہے کھلا سامنے!
لیکن وجود بھول جائے
فلائی آسماں کی
طرف -
واپس آئے بار بار نقتا اے آغاز کی -
جانب، بہت مشکل ہے مستقل
رہا ہونا -
**
-شانتنو  سانیال

Friday 5 July 2013

روح تک اترو کبھی -

کبھی ہو سکے تو میری روح تک اترو، کافی
نہیں لب چھو کر، گہرائی کا انداز
کرنا، آئینے کی بھی اپنی
ہیں مجبوریاں! آساں
نہیں چہرے کی -
عبارت
یوں پڑھنا، تمہاری خواہشوں میں ہے نمایاں -
لذت اے بدن کی مہک، میری
جستجو میں ہیں شامل
خیال سے باہر
نعمت
بے شمار! یہ وہ چاہت ہے جسے لفظوں میں -
بیان کرنا ہے ناممکن، اک
جنوں  سوفيانا جو لے
جائے وجود، اک
عجیب
اصرار کی جانب جو نازل بھی ہے اور
پوشیدہ بھی -
**
- شانتنو  سانیال

Thursday 23 August 2012


پل بھر میں

میری آنکھوں سے جو بوند گرے، نہ تھے وہ شبنم،
نہ ہی کوئی قیمتی جواهر، تیری دامن
کی پناہ تھی شاید سيپ کی چاہت،
جو رات ڈھلتے موتیوں میں یوں
تمام تبدیل
گئے!
میرا وجود تھا، سمندر کا خاموش کنارہ،
سینے میں لیے کوئی آگ گہرا، تیری
موج اے مهوببت میں تھی وہ
تاشير، کہ تمام سنگ -
اے عذاب، پل بھر میں اصیل  ہو
گئے!

-شانتنو سانیال
 http://sanyalsazeez.blogspot.in/

Monday 6 August 2012


دو لفظ

ضمیر سے اٹھ کر جب احساس بنے مقدس،
کوئی خوبصورت پےكر، دل میں اس وقت جاگتے
ہیں پرستش، تصور سے کہیں آگے،
ہر انسان جہاں لگے يكسا،
ہر لب پہ کھلے مسکراہٹ
دعاؤں والے، چہرے
پر ابھرے وہ
پاکیزگی مستقل، جھک جائیں ظالموں کے
سر اپنے آپ، یہ خدا دے مجھے وہ
رحمت کہ ہر سانس میں ہوں
انسانیت رواں،
کہ ہر
چہرے پہ دیکھوں تیرا ہی اكش، نور اے آبشار ،

شانتنو سانیال

Wednesday 30 May 2012



کل رات کوئی
وہ تمام الذام بهوت خوبصورت لگے -
جو اس نے لگائے تھے مجھ پر، یوں
بھی زندگی میں انعام  کی
کمی نہ تھی، اک اور
نایاب نگینہ
جڑ گیا
کوئی،
داغے دل لئے پھرتا ہوں میں اس کی گلی
میں اکثر، بدحواس سا کچھ کچھ،
سنا ہے؛ ٹوٹے دہلیز پر کل
شب، بھیگا گلاب
رکھ گیا
کوئی،
شانتنو سانیال