Friday 22 July 2011

مٹی کے کھلونے
 
گہرایوں کا تو پتا نہیں وڈھ
چلے ہیں خوشخ پتے نہ جانے کس طرف
شاخوں کے ماتھے کوئی شکن نہیں
زندگی ہے پھر منتظر کسی کی اک
مسکراہٹ کے لئے کون الصباح
دے گیا آنکھوں کو تازگی بھری
انتظاارے خوشی پھر کھل چلے ہیں
اداس ٹہنیوں میں ڈھیروں مھوبّت کے پھول
ہتھیلی میں چھپا رکھی ہے اک بوند
جو رات نے چپکے سے آنکھوں پہ سجایا
تھا، تمھارے انگلیوں کے نشان
چھوده گئے ہیں ، بھیگی پلکوں تلے کوئی خواب ،
زندگی پھرپکارتی ہے کیسے
بھر چلے ہیں ویران ندی کی گھاٹیاں  
تم ہو یہیں کہیںیا ہے بھرم میرا   
جی چاہے کہ سنوار لوں الجھی لٹیں  
آیینہ دے رہا ہے دستک ، کوئی بھیگ چلا
ہے بہار ، کھول دوں اک بار بند دروازہ   
بھوت تیز بارش ہے ، نہ بہ جاہیں کہیں
ریت کے مکاں، کچچے مٹی کے کھلونے سبھی 

-شانتنو سانیال  
نظم


نہ دیکھ پھر مجھے طرقب نظرسے یوں

مجروح جسم درد شخشیت لے

کس طرح تیری مھوبّت قبل کروں کے

یہ خوشفہمی نہ دے جائے

کہیں طویل جینے کی سزا دوبارہ

رہنے بھی دے اشفاقے انعام نیا

ابھی ابھی تو چھاے ہیں بادل گھنے

برسنے دے نگاہوں کو دو پل کی

دور ہو جائے صدیوں کی ویرانگی

کوئی خوبصورت گلے سبار تو کھلے

خسق دل میں گرے چند شبنمی بوندیں

بوجھل سانسوں میں سجے صندلی خوشبو

پھر بکھرتی لہروں کو ساحل ملے

زندگی کو جینے کا نیا انداز ملے

-- شانتانو سانیال