Friday 22 July 2011

نظم


نہ دیکھ پھر مجھے طرقب نظرسے یوں

مجروح جسم درد شخشیت لے

کس طرح تیری مھوبّت قبل کروں کے

یہ خوشفہمی نہ دے جائے

کہیں طویل جینے کی سزا دوبارہ

رہنے بھی دے اشفاقے انعام نیا

ابھی ابھی تو چھاے ہیں بادل گھنے

برسنے دے نگاہوں کو دو پل کی

دور ہو جائے صدیوں کی ویرانگی

کوئی خوبصورت گلے سبار تو کھلے

خسق دل میں گرے چند شبنمی بوندیں

بوجھل سانسوں میں سجے صندلی خوشبو

پھر بکھرتی لہروں کو ساحل ملے

زندگی کو جینے کا نیا انداز ملے

-- شانتانو سانیال

No comments:

Post a Comment