نظم
نہ دیکھ پھر مجھے طرقب نظرسے یوں
مجروح جسم درد شخشیت لے
کس طرح تیری مھوبّت قبل کروں کے
یہ خوشفہمی نہ دے جائے
کہیں طویل جینے کی سزا دوبارہ
رہنے بھی دے اشفاقے انعام نیا
برسنے دے نگاہوں کو دو پل کی
دور ہو جائے صدیوں کی ویرانگی
کوئی خوبصورت گلے سبار تو کھلے
خسق دل میں گرے چند شبنمی بوندیں
بوجھل سانسوں میں سجے صندلی خوشبو
پھر بکھرتی لہروں کو ساحل ملے
زندگی کو جینے کا نیا انداز ملے
-- شانتانو سانیال
No comments:
Post a Comment