Saturday 27 August 2011

غزل

تاروں بھرا یہ شاميانا، رات سجی دلہن --

زندگی چاہے نذات، پھر وہی چر دہن،

دریا سے اٹھے دھواں، بچیں   قشتي، روح بیقرار 
ڈوبتي ابھرتی لہریں، پھر وہی ادھیر تھكن،

رکے ضرور وادیوں  میں، مڑ کے دیکھا بھی ہمیں --
نہ بڈھے قدم، گھےرتي رہی یوں دل کی الجھن،

کوئی سایہ اندھیروں  میں بھٹكتا رہا رات بھر --
بند دروازے، دستک نہ دے سکا، یہ میرا من،

ویراں سڑکوں سے کون گزرا لهولهان پاؤں
جسم پہ بکھرے داغ، انبجھ ہے وہ اگن،

خود کو سمےٹتا ہوں، میں مسلسل زندگی
کیا ہوا کہ وہ تمام مسسرتے ہیں،گھن 

صبح کی روشنی میں نہ دیکھ یوں زمانہ مجھے
ميلو لمبی تيرگي سے چرا لایا ہوں یہ بدن،

شانتانو  سانيال

No comments:

Post a Comment