Saturday 27 August 2011

غزل

اڑتے پل سے وہ گزرے ، سفید بادلوں کی طرحنظر بھی آئے ذرا ذرا ، پھر اوجھل ہو گئے ،
زندگی تكتي رہی ، اشاروں کی وہبتیاں رشتے تمام یوں نگاہوں سے بہتے کاجل ہو گئے ،
اپنا پن ، فٹ پاتھ ، پرانی کتابوں کی دکانچھو نہ سکا ، کہ عشق آسمانی آنچل   ہو گئے ،
وہ ہنسے یا آنسو بہائے ، کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ،چاہنے والے نہ جانے کب ، کہاں ، کیوں پاگل ہو گئے ،
گفاؤں  میں تھا کہیں گم ، وہ خود کو یوں مٹایہ ہوےریشمی دھاگو کے خواب تمام مكڑي کے جال ہو گئے ،
نہ دے سدا کہ بازگشت تیری ابھر کر بکھر جائے گیزندگی کے حسین پل ، پگھل کر بادل ہو گئے ،
لوگ کہتے ہیں ، مجھے برباد اک دردے  افسانا ، کہیںهمراهے طوفان ، جذبات تمام  سنگے  ساحل ہو گئے!
شانتانو  سانيال

No comments:

Post a Comment