Friday 23 September 2011

غزل

یہ گما تھا وہ چاہتے ہیں ، ہمیں زندگی سے کہیں زیادہ
سانس رکتے ہی تمام ، وہ خوشی كےبهام دور ہونے لگے ،

بامے حسرت پہ شام ڈھلتے وہ چراغ جلانا نہ بھولے
تابشے روح لرجتي ہے ، راحت و آرام دور ہونے لگے ،

میں نے خود بخود خود اوڑھ لی ہے ، تيرگي اے فراموش شاید
لجذتے مهوببت ، مرحلہ شاد ، تمام دور ہونے لگے ،

اک پل نظر سے دور نہ ہونے کی ، ضمانت تھی بے معنی
رفتا رفتا یوں ، زندگی سے سبهو شام دور ہونے لگے ،

-- شانتنو  سانيال

ابهام -- كوهرا
بام -- پٹھار
تابش -- چمک
مرحلہ -- وقت
رفتا -- دھیرے

No comments:

Post a Comment