Friday 23 September 2011

 غزل 

نہ ملو اس طرح کہ مل کے دوریاں اور بڑھ جائے 
تشنگي رہے ذرا باقی اور درد بھی اثر کر جائے 

وہ کھیلتے ہیں دلوں سے نفاست اور یوں سنبھل کر 
شیشے غر ٹوٹے غم نہیں ، بہتے زخم مگر بھر جائے 

عذاب او دعا میں فرق کرنا نہیں تھا اتنا اسا 
لوٹ کر دنیا میری اس نے کہا قسمت سںور جائے 

ساحل کہ زمیں تھی رےتيلي ، پاؤں رکھنا تھا مشکل 
ان کو شاید كھوف تھا ، کہیں زندگی نہ ابھر جائے 

ڈوبتے سورج کو علم نہ تھا ، سمندر کی وہ گہرائی 
تمام رات خود سے الجھا رہا ، جائے تو کدھر جائے 

ان کی آنکھوں میں کہیں بستے ہیں جگنو کے ذجيرے 
امید میں بیٹھے ہیں ذلمات ، کہ اجالے کبھی گھر آئے 

-- شانتنو  سانيال 

مطلب : 
تشنگي -- پیاس 
نفاست -- صفائی سے 
عذاب -- لعنت 
ذجيرے -- جزائر 
ذلمات -- اندھیرے

No comments:

Post a Comment