غزل
رہنے دے بھرم قائم کچھ دیر ہی سہی
ان کو ہے شاید مجھ سے اپنا پن ذرا ذرا
پھر چاہتی ہے زندگی اجرت کیوں کر
قسطوں میں اٹھی ہے پھر یہ دھڑکن ذرا ذرا
اڑتی ہیں تتليا بچا كاٹو سے پںکھ اپنے
پھر كھوپھذدا سا ہے، لڑکپن ذرا ذرا
وقت نے چھین لیا رنگوں نور کوئی بات نہیں
جانتا ہے مجھے قدیم وہ درپن ذرا ذرا
لکھے تھے کبھی اس نے زندگی پہ واقعات ہزار
ہے اسنا مجھ اجڑا انجمن ذرا ذرا
برگد کے سائے پہ كمجكم نہ رکھ باذبني
دھوپ او چھاو کا ہے اپنا چلن ذرا ذرا
نہ مٹا پائی اهساسے انسانیت، توپھا بھی!
اٹھتے ہیں دلوں میں درد یوں ادتن ذرا ذرا
--- شانتنو سانيال- شانتنو سانيال
اجرت -- فیس
اسنا -- پہچانا
باذبني -- سكجا
No comments:
Post a Comment