مٹی کے کھلونے
گہرایوں کا تو پتا نہیں وڈھ
چلے ہیں خوشخ پتے نہ جانے کس طرف
شاخوں کے ماتھے کوئی شکن نہیں
زندگی ہے پھر منتظر کسی کی اک
مسکراہٹ کے لئے کون الصباح
دے گیا آنکھوں کو تازگی بھری
انتظاارے خوشی پھر کھل چلے ہیں
اداس ٹہنیوں میں ڈھیروں مھوبّت کے پھول
ہتھیلی میں چھپا رکھی ہے اک بوند
جو رات نے چپکے سے آنکھوں پہ سجایا
تھا، تمھارے انگلیوں کے نشان
چھوده گئے ہیں ، بھیگی پلکوں تلے کوئی خواب ،
زندگی پھرپکارتی ہے کیسے
بھر چلے ہیں ویران ندی کی گھاٹیاں
تم ہو یہیں کہیںیا ہے بھرم میرا

ہے بہار ، کھول دوں اک بار بند دروازہ
بھوت تیز بارش ہے ، نہ بہ جاہیں کہیں
ریت کے مکاں، کچچے مٹی کے کھلونے سبھی
-شانتنو سانیال
No comments:
Post a Comment