
پل بھر میں
میری آنکھوں سے جو بوند گرے، نہ تھے وہ شبنم،
نہ ہی کوئی قیمتی جواهر، تیری دامن
کی پناہ تھی شاید سيپ کی چاہت،
جو رات ڈھلتے موتیوں میں یوں
تمام تبدیل
گئے!
میرا وجود تھا، سمندر کا خاموش کنارہ،
سینے میں لیے کوئی آگ گہرا، تیری
موج اے مهوببت میں تھی وہ
تاشير، کہ تمام سنگ -
اے عذاب، پل بھر میں اصیل ہو
گئے!