
زندگی تكتي رہی ، اشاروں کی وہبتیاں رشتے تمام یوں نگاہوں سے بہتے کاجل ہو گئے ،
اپنا پن ، فٹ پاتھ ، پرانی کتابوں کی دکانچھو نہ سکا ، کہ عشق آسمانی آنچل ہو گئے ،
وہ ہنسے یا آنسو بہائے ، کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ،چاہنے والے نہ جانے کب ، کہاں ، کیوں پاگل ہو گئے ،
گفاؤں میں تھا کہیں گم ، وہ خود کو یوں مٹایہ ہوےریشمی دھاگو کے خواب تمام مكڑي کے جال ہو گئے ،
نہ دے سدا کہ بازگشت تیری ابھر کر بکھر جائے گیزندگی کے حسین پل ، پگھل کر بادل ہو گئے ،
لوگ کہتے ہیں ، مجھے برباد اک دردے افسانا ، کہیںهمراهے طوفان ، جذبات تمام سنگے ساحل ہو گئے!
شانتانو سانيال