Friday, 23 September 2011
غزل
یہ گما تھا وہ چاہتے ہیں ، ہمیں زندگی سے کہیں زیادہ
سانس رکتے ہی تمام ، وہ خوشی كےبهام دور ہونے لگے ،
بامے حسرت پہ شام ڈھلتے وہ چراغ جلانا نہ بھولے
تابشے روح لرجتي ہے ، راحت و آرام دور ہونے لگے ،
میں نے خود بخود خود اوڑھ لی ہے ، تيرگي اے فراموش شاید
لجذتے مهوببت ، مرحلہ شاد ، تمام دور ہونے لگے ،
اک پل نظر سے دور نہ ہونے کی ، ضمانت تھی بے معنی
رفتا رفتا یوں ، زندگی سے سبهو شام دور ہونے لگے ،
-- شانتنو سانيال
ابهام -- كوهرا
بام -- پٹھار
تابش -- چمک
مرحلہ -- وقت
رفتا -- دھیرے
یہ گما تھا وہ چاہتے ہیں ، ہمیں زندگی سے کہیں زیادہ
سانس رکتے ہی تمام ، وہ خوشی كےبهام دور ہونے لگے ،
بامے حسرت پہ شام ڈھلتے وہ چراغ جلانا نہ بھولے
تابشے روح لرجتي ہے ، راحت و آرام دور ہونے لگے ،
میں نے خود بخود خود اوڑھ لی ہے ، تيرگي اے فراموش شاید
لجذتے مهوببت ، مرحلہ شاد ، تمام دور ہونے لگے ،
اک پل نظر سے دور نہ ہونے کی ، ضمانت تھی بے معنی
رفتا رفتا یوں ، زندگی سے سبهو شام دور ہونے لگے ،
-- شانتنو سانيال
ابهام -- كوهرا
بام -- پٹھار
تابش -- چمک
مرحلہ -- وقت
رفتا -- دھیرے
نہ ملو اس طرح کہ مل کے دوریاں اور بڑھ جائے
تشنگي رہے ذرا باقی اور درد بھی اثر کر جائے
وہ کھیلتے ہیں دلوں سے نفاست اور یوں سنبھل کر
شیشے غر ٹوٹے غم نہیں ، بہتے زخم مگر بھر جائے
عذاب او دعا میں فرق کرنا نہیں تھا اتنا اسا
لوٹ کر دنیا میری اس نے کہا قسمت سںور جائے
ساحل کہ زمیں تھی رےتيلي ، پاؤں رکھنا تھا مشکل
ان کو شاید كھوف تھا ، کہیں زندگی نہ ابھر جائے
ڈوبتے سورج کو علم نہ تھا ، سمندر کی وہ گہرائی
تمام رات خود سے الجھا رہا ، جائے تو کدھر جائے
ان کی آنکھوں میں کہیں بستے ہیں جگنو کے ذجيرے
امید میں بیٹھے ہیں ذلمات ، کہ اجالے کبھی گھر آئے
-- شانتنو سانيال
مطلب :
تشنگي -- پیاس
نفاست -- صفائی سے
عذاب -- لعنت
ذجيرے -- جزائر
ذلمات -- اندھیرے
Subscribe to:
Posts (Atom)